مَرکزِ اَنوَارِ تَجلّیات … – ؒدم میراں لعل پاک بھا و ل شیر قلندر
Menu

مَرکزِ اَنوَارِ تَجلّیات …

مَرکزِ اَنوَارِ تَجلّیات اعلٰی حضرت حضُور سـّـید بہاوُالدّین الگـیلانی البغدادی الحجروی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ المعرُوف شاہ بہاول شیر غازی قلندر پاک باز کے دربارِ مُبارک کی نور سے بھر پور روح پرواز اور دلکش بیرونی منظر مُبارک کی نورانی تصویر مبارک.

شہنشاہ حضرت میراں بہاول شیر قلندر (رحمتہ اللہ علیہ)

آپ کا اصل نام بہاوالدین گیلانی رحمۃ اللہ علیہ ہے۔ آپ موضع جامہ علاقہ گیلان کے ایک مشہور قصبے سے جو کہ بغداد شریف میں واقع ہے وہاں سے اپنے والد بزرگوار سید تاج محمود الدین سرخپوش (رحمتہ اللہ علیہ) اور اپنی پھوپھی محترمہ کے ہمراہ تبلیغ دین کے ارادے سے ہندوستان تشریف لا ئے- پہلے آپ اپنے والد محترم اور بعد میں اپنی پھوپھی محترمہ سے علم حاصل کرتے رہے۔ آپ کے والد محترم بدایوں (ہندوستان کا ایک شہر) میں شہید ہوئے۔ حضرت میراں بہاول شیر قلندر رحمتہ اللہ علیہ کی عمر مبارک حجرہ شریف کی دو مشہور کتب “درالعجا ئب” اور “تذکرہ مقیمیہ” کے مطابق اڑھائی سو سال سے زیادہ اور تین سو سال سے کچھ کم ہے۔ اکثر عمر کا حصہ چلوں اور گوشہ نشینی میں گزرا۔ سب سے بڑا چلہ سترسال کا بیان کیا گیا ہے۔ادنی‘ مدت کا چلہ بارہ بارہ سال کا ہوتا تھا۔ سب سے بڑا چلہ جلال الدین اکبر بادشاہ کے دور میں واقع ہوا تھا۔ آپ کی دعا اور اعانت سے قلعہ بنگالہ فتح ہوا تھا جو کہ اکبر بادشاہ سے فتح نہیں ہو رہا تھا۔

آپ مدینہ طیبہ بنابر زیارت روضہ اقدس آنحضور سرورکائنات فخرموجودات سیدالمرسلین و خاتمالنبیین حاضر ہوئے تو متولی روضہ مطہرہ نے آپ سے ذات کا سوال کیا،آپ نے فرمایا میں سید حسنی ہوں۔ چونکہ آپ کی اس وقت حالت ظاہری قلندرانہ تھی اس لیے انھوں نے کہا کے آپ کے پاس سید حسنی ہونے کا کیا ثبوت ہے۔ آپ نے فرمایا ذرا ٹھرو میں ابھی ثبوت دیتا ہوں۔ چنانچہ آپ نے آستانہ عرش آشیانہ حضور سرورکائنات کے مقابل کھڑے ہو کر کہا “السلام علیکم یا جدی” جواب میں ارشاد ہوا “واعلیکم السلام یا آلی”۔ یہ آواز سن کر سب لوگ آپ کے قدموں میں گر پڑے۔ کچھ عرصہ آپ وہاں رہے بعد میں آپ عازم سفر ہند ہوئے اور ہندوستان میں مشہور مقامات کی سیر کی اور ساتھ ساتھ دین اسلام کی تبلیغ بھی کرتے رہے۔

اس سفر میں جہاں جہاں آپ نے کچھ عرصہ کے لیے قیام فرمایا وہاں دربار بنتے گئے۔ اس سلسلے کا ایک دربار لٹن روڈ اور چوبرجی کو ملانے والی سڑک پر بھی موجود ہے۔ آپ کی نسبت سے ہی اس روڈ کو بہاول شیر روڈ کہا جاتا ہے۔
آخر میں آپ حجرہ شریف تشریف لائے اور قیام فرمایا، اس وقت اس کا نام پتھروال تھا اور یہاں قوم دھول آباد تھی۔ یہاں پر پہنچے تو اکبر بادشاہ نے بڑی منت سماجت کی کہ میری ہمشیرہ کو آپ زوجیت میں قبول فرما کر اعزاز بخشیں۔ آپ نے قبول کیا اور شہزادی سے آپ نے عقد نکاح کیا۔ بادشاہ نے بہت سا زروجواہر ، مالو اسباب شہزادی کو جہیز میں دیا تھا مگر آپ نے اللہ کے نام پر فدا کر دیا اور شہزادی کو درویشانہ گزران کرنے کی تاقید فرمائی۔ جب شہزادی نے اس حالت میں تکلیف محسوس کی تو اپنے بھائی اکبر بادشاہ کی طرف شکائت لکھی اس پر اس نے ایک لاکھ روپے کی جاگیر حضرت صاحب کے نام نامی پر مقرر فرما کر سند لکھ کر بھیج دی۔ چنانچہ جائداد مذکورہ مہاراجہ رنجیت سنگھ تک نسلا” بعد نسلا” چلی آئی۔ القصہ اس جگہ پہنچے جہاں اب حجرہ منورہ آباد ہے۔ اس کے نواح میں قوم دھول آباد تھی جہاں اب مزار شریف ہے یہ اس وقت عین دریا کے درمیان تھی آپ کی وجہ عالی سے دریا کنارہ کش ہو گیا اور شہر کی بنیاد رکھی گئی۔ آپ اور شیخ داوءد بندگی کا ایک ہی زمانہ تھا.

دُعاگو: سگِ حُجرہ شَاہ مُقِیم قیصر رزاق بھنڈر

💚 یا حضرت سخی دم میراں لعل پاک بہاول شیر قلندر ؒ 💙

Facebook Comments

Categories:   متفرق

Comments

Sorry, comments are closed for this item.